بھیک مانگنا: مفتی تنویر احمد ڈھرنال

بھیک مانگنا

مفتی تنویر احمد ڈھرنال
بھیک مانگنا،لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا،غیرت وحمیت کے خلاف ہے اس سے خود داری ختم ہو جاتی ہے انسان کاہل اورکام چور ہو جاتا ہے سب کی نگاہوں میں حقیر ہو جاتا ہے۔خوشامد کر کے مانگتا ہے کوئی دیتا ہے اور کوئی نہیں دیتا ،کوئی خوشی سے دیتا ہے اور کوئی منہ بگاڑ کر ،کوئی نرمی سے کوئی جھڑک کر انکاردیتا ہے،یہ سب کچھ اس کو سہنا پڑتا ہے کیونکہ اس کا ہاتھ مانگنے والا ہے اور مانگنے والا ہاتھ نیچے ہوتا ہے اس کو نیچا برداشت کرنا پڑتا ہے اور دینے والا ہاتھ اوپر ہوتا ہے اور اوپر والا اونچا مانا جاتا ہے جیسا کہ حضور سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے کہ” اوپر کا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نچلا ہاتھ مانگنے والا ہے“ ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ مانگنے کا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں باوجودیکہ گھر بھرا ہو ا ہوتا ہے ،کسی چیزکی ضرورت نہیں ہوتی ،اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہوتا ہے،جسم تندرست و توانا ہوتا ہے ہاتھ پاوں میں کمانے کی طاقت بھی ہوتی ہے مگر بھیک مانگنے کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ کر ،عزت نفس کو بیچ کر ،ڈانٹ ڈپٹ سن کر ،جھڑکیا ں برداشت کر کے،جھوٹے سچے بہانے بنا کر ،روپ بدل کر ،خود کو بیمار اور اپاہج ظاہر کر کے بھیک مانگنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور بعض بھیک مانگنے والے یہ کہنے سے بھی نہیں کتراتے کہ ہم کیوں نہ مانگیں ،یہی ہمارا پیشہ ہے ،یہی ہماری روزی ہے،مانگنا ہمارا پیدائشی اور خاندانی حق ہے حالانکہ بھیک مانگنے کا تعلق کسی ذات برادری سے نہیں بلکہ اس کا تعلق ضرورت اور حاجت سے ہے بغیر ضرورت کے جو مانگے گا وہ مانگ مانگ کر جہنم کی آگ اکٹھا کر ے گا جیسا کی نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ”جس نے لوگوں سے ان کا مال مانگااپنے مال کو زیادہ کرنے کی غرض سے ،تو وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے،پس چاہے کم مانگے یا زیادہ“حجة الوداع کے موقع پر آپ ﷺ صدقہ کی تقسیم کر رہے تھے تو دو صحت مندشخصوںنے مانگا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس میں کسی مالدار اور کمانے کے لائق کے لئے کوئی حصہ نہیں،ایک روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے سوال کیا اور اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ جو اس کو غنی کر دے تو وہ اس سوال کے ذریعے جہنم کی آگ کی زیادتی طلب کر رہا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ غنی ہونے کی حد کیاہے کہ جس کے ہونے سے سوال کرنا جائز نہیں؟تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”اس قدر جو اس کے لئے صبح وشام کی غذا کا کام دے سکے “(ابو داود)مانگنا صرف ایسے شخص کے لئے جائز ہے جو حقیقت میں کنگا ل اور فقیر ہو یا سخت پریشان حال مقروض ہواور جو لوگ ان حالات کے بغیر مانگتے رہتے ہیںان کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہو گی سارا چہرہ زخموں سے بھرا ہو ا ہو گا(بخاری ومسلم)بہر حال لالچ کے ساتھ مال لینا بے برکتی پیدا کرتا ہے ،محتاج سمجھ کر خود کوئی دے دے اس میں برکت ہوتی ہے جو آدمی لوگوں کے مال سے بے نیاز اور لاپرواہ ہوتا ہے اس کو اللہ تعالی حقیقی غنا اور فراخی عطا کرتے ہیںکتنے افسوس کی بات ہے کہ جس دین نے بھیک مانگنے سے سب سے زیادہ منع کیا اور محنت سے کمانے کو فرض اورہاتھ سے کمانےوالے کو اللہ کا دوست قرار دیا اسی دین کے نام لیواوں میں بھکاریوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے ،ہر چوراہے،گلی کوچے ،فٹ پاتھوں ،اڈوں اورمسجد کی سیڑھیوں اور دروازوںپر بھیک مانگنے والوں کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے ،ایسے حالات میںہم سب کا یہ فرض ہے کہ ہم ان بھکاریوں کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی ترغیب دیں، ان کی مدد کر کے انہیں روزی روٹی خود سے کمانے پرلگادیں۔پیشہ ور فقیروں،برادری کے نام پر مانگنے والوں اور ایسے لوگوں کو بھیک ہر گز نہ دیں جو تندرست و توانا ہوں،کمانے کھانے کے لائق ہوں،گھر بھرا ہوا ہو،کسی طرح کی محتاجگی نہ ہو کیونکہ ایسے لوگ اصل حقداروں کے مال پر بھی ڈاکہ ڈالتے ہیں۔اس لئے تھوڑی کوشش اور محنت کر کے ان لوگوں کوڈھونڈ کر صدقات وغیرہ دینا چاہیے جو سفید پوش ہیں باوجود غریب وفقیر ہونے کے ،کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے تا کہ بھیک مانگنے کی حوصلی شکنی ہو اور اصل حق دار تک اس کا حق پہنچ جائے
Previous
Next Post »