رزق حلال اختیا ر کریں: مفتی تنویراحمدڈھرنال

رزق حلال اختیا ر کریں

تحریر: مفتی تنویراحمدڈھرنال

کتاب وسنت میں رزق حلال اختیارکرنے اور پاکیزہ غذا کھانے پر زور دیا گیا ہے کیونکہ غذا کا اثرانسان کے دل ودماغ پر پڑتا ہے غذاکااثر انسان کے جذبات وخیالات اور اعمال وافعال پر بھی پڑتا ہے ،اگر غذاحرام اورناپاک ہوگی تودل سیاہ اور سخت ہوجائے گا،حق کو قبول کرنے کی استعداد ختم ہو جائے گی ،دماغ میں ناپاک خیالات پرورش پائیں گے ،نیک اعمال کرنے کی توفیق سلب ہو جائے گی،نیکی کرنا مشکل اور گناہ کرنا آسان معلوم ہو گا۔اولاد نافرمان ہو جائے گی ۔حرام کی روزی وہ آگ ہے جو فکر کی چربی کو پگھلا دیتی ہے اور اگر رزقِ حلال اختیار کیا جائے تو اس سے دل میں نرمی ،اللہ کا خوف اور ہدایت کا نور پیدا ہوتا ہے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق نصیب ہو تی ہے اولاد فرمانبردار اور نیک ہوتی ہے ،جوشخص چالیس روز رزق حلال کھائے جس میںذرہ بھربھی حرام کی آمیزش نہ ہوتواللہ تعالی اس کے دل کومنور کر دیتا ہے اور اس کی زبان سے حکمت کی چشمے جاری ہوتی ہیںاور اپنے اہل وعیال کے لئے حلال روزی تلاش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کے برابر ہو تا ہے اور اس کا صلہ اس دنیا میں نقد ملتا ہے۔ رزق حلال کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس کی طلب کو فرض قرار دیا ہے ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺنے فرماےانمازروزہ جیسے فرائض کے بعد کسب حلال کا طلب کرنا بھی فرض ہے “جہاں حضورﷺ نے رزق حلال کی طلب کو فرض اور اس کی نورانیت اور برکات بیان فرمائیں ہیں وہاں آپ ﷺ نے حرام روزی سے بچنے کی تلقین بھی کی ہے اور اس کی نحوست اور مکروہ اثرات بیان فرمائے ہیںکہ حرام کھانے والا ایسا بدبخت اور بدنصیب ہے کہ اس کی نہ نماز قبول ہے اور نہ نیک اعمال اور نہ صدقہ و خیرات اور نہ دعائیں، جیسا کہ سرکار دوعالم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو حرام کاایک لقمہ بھی کھائے گا اس کی چالیس راتوں کی نماز قبول نہ ہوگی،اسی طرح ایک اور حدیث پاک میں آتا ہے کہ جو شخص دس درہم میں کوئی کپڑا خریدے اوراس میں ایک درہم حرام کا ہو تو اللہ تعالی اس کی کوئی نماز قبول نہ فرمائیں گے جب تک وہ کپڑا اس کے اوپر رہے گاجو بھی حرام لقمہ اپنے پیٹ میں ڈال لیتا ہے تو اس کے چالیس دنوں کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا“حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جس کا کھانا حرام ،لباس حرام،اورغذا حرام ہو تو ان کی وجہ اس کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے ؟جو شخص ما ل گناہ سے کماتا ہے پھر اسے عزیزوں کی مدد یا صدقے کرتا ہے یا خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس سب کو قیامت کے دن جمع کیا جاے گا اور اس کے ساتھ جہنم کی آگ میں ڈال دیا جائے گا۔اور رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں وہ جسم نہیں جائے گا جس نے حرام غذا سے پرورش پائی “ حضرت یحیٰی بن معاذ ؒ فرماتے ہیں روپیہ پیسہ بچھو ہیں اگر تمھیں اس کے کاٹے کا منتر نہ آتا ہو تو اسے ہاتھ نہ لگاﺅ ،اگر اس نے تجھے ڈنگ مار دیا تو اس کا زہر تجھے ہلاک کر دے گا ،پوچھا گیااس کا منتر کیا ہے تو فرمایا حلال کمانااور جائز کام میں خرچ کرنا۔ حضرت سفیان ثوری ؒ فرماتے ہیں” میں ایک آیت پڑھتا تھا تو میرے سامنے علم کے ستر دروازے کھول دیے جاتے تھے جب سے میں ان امراءکے مال کھانے لگا ہوں اب ایک آیت پڑھتا ہوں تو ایک دروازہ بھی نہیں کھلتا“ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم ان ارشادات کو پڑھ کر آج سے عہد کریں کہ ہم رزق حلال کا راستہ اختیا کریں گے اور رزق حرام کے قریب بھی نہ جائیں گے ،ہم بھوکا رہنا گوارا کر لیں گے لیکن حرام روزی نہیں چکھیں گے جیسے علامہ اقبال مرحوم کیا خوبصورت بات کہہ گئے کہ
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اگر انسان اس فکر کے ساتھ زندگی گزارے کہ کوئی پیسہ اس کے مال کے اندر ناحق شامل نہ ہو تو یقین رکھئے پھر اگر ساری عمر نوافل نہ پڑھے اور ذکر وتسبیح نہ کرے لیکن اپنے آپ کو حرام سے بچا کر قبر تک لے گیا تو انشاءاللہ سیدھا جنت میں جائے گا اور اگر حلال وحرام کی فکر نہ کی مگر تہجد ،اشراق،چاشت کی نماز پڑھ رہا ہے اور ذکروتسبیح بھی خوب کرتا ہے تو یاد رکھے کہ یہ چیزیں اس کو حرام مال کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گی ۔اللہ رب العزت ہم کو رزق حلال نصیب فرمائے اور حرام سے ہم سب کی حفاظت فرمائے(آمین)
Previous
Next Post »